23 دسمبر 2025 - 12:57
قبلۂ اول 'مسجد الاقصیٰ' کے یہودیانے کی طرف صہیونیوں کا نیا قدم

آج قدس شریف میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض دورے کے اوقات یا ادارہ جاتی انتظامات پر تنازعہ نہیں ہے، بلکہ مقدس ترین اسلامی علامتوں میں سے ایک کی شناخت، خودمختاری اور مستقبل پر ایک مکمل جنگ ہے۔ ایک ایسی جنگ جو موثر ردعمل کی عدم موجودگی میں ایک ناقابل واپسی حقیقت قائم ہونے اور مسجد الاقصیٰ کی ادارہ جاتی اور اسلامی شناخت کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || شہر قدس شریف اور خاص طور پر مسجد الاقصیٰ ایک بار پھر صہیونی ریاست کی غاصبانہ پالیسیوں میں نمایاں اور منصوبہ بند شدت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مسجد الاقصیٰ کے صحنوں پر صہیونی آباد کاروں کے تجاوزات کے اوقات کو شام تک بڑھانے کے سرکاری اعلان کے ساتھ، اس بار یہ جارحانہ اور غاصبانہ رویہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس کارروائی کو "وقت کی تقسیم" کا منصوبہ مسلط کرنے اور اس مقدس مقام کے مذہبی اور تاریخی تشخص میں بنیادی تبدیلی کرنے کی راہ ہموار کرنے کی طرف ایک پیش قدمی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

صہیونی ریاست کے نام نہاد وزیر انصاف اور نائب وزیر اعظم یاریو لیون نے حنوکاہ کی تعطیل کی آخری شمع روشن کرنے کی تقریب میں ـ باب المغربہ کے سامنے جو کہ آباد کاروں کے تجاوزات کے اہم دروازوں میں سے ایک ہے، ـ اس موقف کا اعلان کیا۔ اپنی تقریر میں، لیون نے مسجد الاقصیٰ میں صہیونی ریاست کی مبینہ کامیابیوں کا حوالہ دیا اور صہیونیوں کے داخلے کے اوقات کو بڑھانے اور یہودی تلمودی رسومات کے انعقاد کا واضح اعلان کیا، جس میں شام اور راتے کے اوقات بھی شامل ہونگے؛ ایک اقدام جس کا مقصد آباد کاروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو آسان بنانا اور ان کی موجودگی کو ادارہ جاتی اور باقاعدہ بنانا ہے۔

قدس کے مسائل پر تحقیق کرنے والے زیاد ابحیص کے مطابق، ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت مسجد الاقصیٰ پر تجاوزات کو کوئی حفاظتی یا عارضی اقدام نہیں بلکہ ایک ساختی سیاسی مذہبی منصوبے کا حصہ سمجھتی ہے۔

ابحیص نے کہا کہ اس پالیسی کی جڑیں 2012 اور 2013 میں قانون سازی کی کوششوں کی طرف پلٹتی ہیں، جب مفدال پارٹی کے نمائندوں نے مسجد الاقصیٰ کی مکمل وقتی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا؛ یہ ایسا منصوبہ تھا جو اگرچہ منظور نہیں ہؤا اور قانون نہیں بن سکا لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اور زبردستی عملی طور پر نافذ کیا گیا۔

اس محقق کے مطابق، آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ وقتی تقسیم کے منصوبے کی تجرباتی مرحلے سے منظم اور ٹارگٹڈ [بامقصد] نفاذ کے مرحلے میں منتقلی ہے۔ درمیانی مدت کا مقصد یہ ہے کہ "مسلمانوں اور یہودیوں کو مسجد میں داخل ہونے کے لئے مساوی اوقات" کا منصوبہ [مسلمان] پر مسلط کیا جائے، جو دراصل مسجد الاقصیٰ کے اسلامی تشخص کو مکمل طور پر ختم کرنے کے راستے میں ایک عبوری مرحلہ ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب گذشتہ برسوں کے دوران بنیامین نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام نے بارہا دعویٰ کیا تھا کہ وہ مسجد الاقصیٰ کی موجودہ پوزیشن برقرار رکھیں گے تاہم، زمینی حقائق سے ـ اس کے برعکس ـ ظاہر ہوتا ہے کہ تجاوزات کے اوقات میں بتدریج اضافہ، رمضان کے مہینے میں تجاوزات کا نفاذ، اور مسلمان نمازیوں پر پابندیوں میں توسیع۔

سنہ 2008 سے، جب مسجد الاقصیٰ پر تجاوزات دن میں تقریباً تین گھنٹے تک محدود تھے، یہ اوقات 2024 میں چھ گھنٹے سے زیادہ ہو گئے، اور اب رات کے اوقات کا اضافہ کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو واضح طور پر مسجد الاقصیٰ پر وقتی کنٹرول میں قابلیت کی طرف چھلانگ کی نشاندہی کرتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج قدس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض دورے کے اوقات یا ادارہ جاتی انتظامات پر تنازعہ نہیں ہے، بلکہ مقدس ترین اسلامی علامتوں میں سے ایک کی شناخت، خودمختاری اور مستقبل پر ایک مکمل جنگ ہے۔ ایک ایسی جنگ جو موثر ردعمل کی عدم موجودگی میں ایک ناقابل واپسی حقیقت قائم ہونے اور مسجد کی ادارہ جاتی اور اسلامی شناخت کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha